یہ وہ سوال
ہے جو دنیا کے تقریبا ہر شخص کے ذہن میں آتا ہے ، چاہے اسکا تعلق ترقی یافتہ دنیا
سے ہے ، ابھرتی (emerging
) ہوئی دنیا سے ، یا ترقی پذیر دنیا سے ........ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر
روز الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں یہ جملے بار بار پڑھتے یا سنتے ہیں کہ ہماری منزل
ترقی ہے ، ہر سیاستدان یہ دعوی کرتا ملتا ہے کہ اس کی قیادت میں ہی ترقی ممکن ہے
اور ہر دانشور و فلسفی ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کی خبر دیتے ہوئے ہمیں ترقی
کرنے کا نسخہ کیمیا بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر اس پر عمل ہو تو ترقی کا ابر
ضرور برسے گا ......
ترقی کیا ہے
....اس سے متعلق دو جدید کی سوشل سائنسز میں تین مشہور ترین نقطہ نظر یا فلسفے ہیں
....
١. انکم (آمدن ) میں اضافہ ......
اس نقطہ نظر کے حاملین کا کہنا کہ دنیا میں انسانوں کو جو سب سے بڑی مشکل اور
مسئلہ درپیش ہے وہ آمدن میں کمی ہے ،جس سے غربت جنم لیتی ہے ....اور اسی غربت کے
سبب ہم اپنی تعلیم و صحت پر توجہ نہیں دے پاتے جسکے باعث ہم ذہنی اور جسمانی طور
پر کمزور رهتے ہیں ، اگر آمدن کا مسئلہ حل کر دیا جائے تو لوگ خود باقی تمام مسائل
کو اپنی صلاحیت برائے استدلال اور عقل و تجزیہ سے حل کر لیں گے ......
٢. مسرت و
خوشی منزل ہے ( utilitarianism)....
اس نقطہ نظر کے حاملین کا کہنا ہے کہ محض دولت یا آمدن ترقی کا معیار نہیں بلکہ
ترقی کا معیار یہ ہے کہ ایک سماج کے افراد کتنے خوش ہیں ، کیا انہیں انکی مسرت و
راحت کے تمام اسباب تک رسائی حاصل ہے ....اس نقطہ نظر کے حاملین کا کہنا ہے کہ
آمدن میں اضافہ کے بعد ایسی سیاسی و سماجی تنظیم قائم کی جائے کہ جس میں افراد اپنی
خوشی و مسرت کے تمام ذرائع کو آزادانہ طور پر حاصل کر سکیں یا اسکی خاطر نتیجہ خیز
محنت، کوشش اور جدوجہد جاری رکھ سکیں .....
٣. آزادی
منزل ہے ... (libertarianism)... (میرا اپنا اسی نقطہ نظر سے زیادہ لگاؤ ہے )
یہ نقطہ نظر بھی آمدن کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے ، مگر اسے منزل نہیں سمجھتا
....اس نقطہ نظر کے حاملین ایک مثال سے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہیں ، یہ کہتے ہیں
کہ عہد وسطی میں جب غلامی عام تھی تو کیا غلام اس حالت میں مطمئن نہ تھے یہ سوچ کر
کہ یہ غلامی ان کا مقدر ہے ...تو کیا انکی یہ خوشی ان کے لئے ایک بہتر معیار ترقی
ہو سکتی ہے ؟..اس کا جواب ہم سب دیں گے ، نہیں ..... اس نقطہ نظر کے دانشوروں کا
کہنا ہے آمدن و مسرت کے امکانات سر آنکھوں پر، مگر یہ آخری منزل نہیں ، آخری منزل
فریڈم ہے کہ ہر شخص جس لائف سٹائل یا عمل کو بہتر سمجھتا ہے اسے اختیار کرے (بشرط
یہ کہ اس کی آزادی کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچائے ) ، یہ ہر ایک کا بنیادی حق ہے
کہ وہ اپنی زندگی کا خود کفیل ہو اور اس پر کسی بھی قسم کا جبر نافذ نہ ہو .......
اس آزادی کی منزل کو حاصل کرنے کے لئے یہ نقطہ نظر پبلک پالیسی کو افراد کی
صلاحیتوں میں اضافہ کے لئے انتظامات قائم کرنے کا مشورہ دیتا ہے ، جیسے تعلیم ،
صحت ، جمہوریت ، سیکولر ازم وغیرہ وغیرہ ....
یہ تینوں
نقطہ نظر اہل مغرب اپنی پالیسیز میں استعمال کرتے ہیں ، لبرٹی کا تصور وہاں کے
کنونشنل wisdom
کا حصہ ہے ، عوام کی مسرت و خوشی پبلک پالیسیز کا مقصد ہے ، اور انکم میں اضافہ کو
ترقی کے لئے سنگ میل سمجھا جاتا ہے .......
مگر ایک
پیچیدگی ایسی ہے جو انکم میں اضافہ کے تصور کو ان باقی دو تصورات پر حاوی کر دیتی
ہے ، وہ ہے evaluation اور measurement کا طریقہ کار ...
اب آپ کیسے پیمائش کر سکتے ہو کہ ایک معاشرہ کے لوگ کتنا خوش ہیں ؟ پہلے سے کم خوش
ہیں یا زیادہ خوش ہیں ؟ پہلے انکی خوشی کا درجہ نوے تھا اور اب اسی ہو گیا ہے ، یہ
نوے اسی ہم کیسے پیمائش کریں؟ ......
اسی طرح آزادی کا معاملہ ہے ....کیسے معلوم ہو کہ کون کتنا آزاد ہے ، کون کم آزاد
ہے اور کون زیادہ ؟ کیا آزادی میں کمی ہوئی ہے یا اضافہ ،،اور کیسے ہوا یہ سب ؟
کیونکہ یہ خوشی یا آزادی کا احساس شخصی خصوصیات ہیں جن کا درجہ ہر شخص میں مختلف
ہوتا ہے ..
اس حوالے سے انکم میں اضافہ یا کمی کے تصور کو کوئی مسئلہ نہیں ، ایک سال کی ٹوٹل
آمدن کو ٹوٹل آبادی پر تقسیم کیا جو جواب آیا اسے Gini coefficient (تقسیم دولت کا
پیمانہ ) سے موازنہ کر کے فی کس آمدنی کا حساب لگا لیا گیا اور یوں بڑھتی ہوئی
آمدن کو ترقی اور کم ہوتی ہوئی آمدن کو تنزلی سمجھ کر آگے بڑھتے ہوئے ہیومن
ڈیویلپمنٹ انڈکس سے بھی مدد لے لی گئی اور باقی پیمانوں سے بھی اس کا موازنہ کر کے
شماریاتی نتائج فورا سے سامنے کر دیئے .....اسی لئے اس تصور کی گونج زیادہ ہے اور
ہم ہر طرف جی ڈی پی ، جی ڈی پی کی آوازیں سنتے ہیں...
میری بات کا
یہ ہرگز مطلب نہیں کہ باقی تصورات کے پاس پیمائش یا گنتی کا کوئی پیمانہ نہیں ،
یقینا ہے ، مگر وہ تجزیاتی (یا شماریاتی )سے زیادہ تھیوریٹیکل (یا نظری ) ہے اور
اس کے لئے وقت بھی زیادہ درکار ہے کہ ہر ایک کی آزادی و خوشی کا حساب لگایا جائے
یا دو معاشروں میں اس کا موازنہ کیا جائے ..... اب آپ اگر کسی بھی سماج کی ترقی کو
جاننا چاھتے ہیں تو اس کے تمام پہلوؤں کا (بشمول جی ڈی پی ) ضرور مطالعہ کریں ،
اور کسی ایک پہلو کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے اس کے شماریاتی و تجزیاتی پہلوؤں کو
ضرور سمجھیں اور ان میں غلطی کے شبہ کو بھی توجہ میں رکھیں کہ انسانی احساسات کو
صحیح طرح سے پیمائش نہیں کیا جا سکتا ....
شکریہ
ذیشان ہاشم
محمد کامران