مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیونکر بنا ؟
ہم جانتے ہیں کہ تحریک
پاکستان کے سلسلے میں مسلم لیگ کی تحریکی گرم جوشی ممبئی ، یو پی اور بنگال میں
اپنے عروج پر تھی جبکہ باقی صوبوں میں اس کی شدت ان صوبوں کی نسبت کچھ زیادہ نہ
تھی ...... خاص طور پر وہ علاقے جو اب پاکستان میں شامل ہیں یہاں مسلم لیگ بطور
ادارہ انتہائی کمزور حالت میں تھی اور اسکی ساکھ عام کارکنوں کی نسبت یہاں کی
جاگیردار اشرافیہ پر انحصار کرتی تھی .... جبکہ بنگال میں مسلم لیگ تنظیمی اعتبار
سے انتہائی مظبوط اور جمہوری تھی جو ہر گلی و محلہ اور شہر و قصبہ میں بطور ایک
مظبوط سیاسی ادارہ کے موجود تھی ..... اب ایک سوال جسے پاکستان کے ہر بالغ ذہن کو
سوچنا چاہئے کہ ایسا کیا ہوا تھا کہ مسلم لیگ نے ١٩٥٤ کے انتخابات میں ٣٠٩ رکنی
ایوان میں محض دس سیٹیں جیتیں جبکہ اس کے مقابلہ میں نئی وجود میں آنے والی دو
سیاسی پارٹیز کا اتحاد یونائیٹڈ فرنٹ نے ٢٢٣ سیٹیں جیت لیں (1) ....اور بات یہاں
تک محدود نہ رہی بلکہ ١٩٧١ میں ہم سب نے دیکھا کہ ملک دو لخت ہو گیا ہے اور مسلم
لیگ کا گھر بنگال اب پاکستانیوں کے لئے پرایا دیس بن گیا ہے ....اس کی جو وجوہات
مجھے سمجھ آئی ہیں وہ درج ذیل ہیں -
- ایک کلچر ایک پالیسی کا بیانیہ ...جس
کے تحت ریاست نے بنگال کی مخصوص ثقافت کو مغربی پاکستان کی ثقافت اور اسلام
کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں بنگال کی تمام امتیازی ثقافتی خصوصیات کو
مٹانے کی کوشش کی ....مثال کے طور پر یہ کوشش کی گئی کہ بنگالی زبان میں عربی
اور فارسی کے الفاظ شامل کر کے اسے اردو کے قریب لایا جائے ، اس کوشش کے جواب
میں بنگال کے لوگوں کے مظاہروں نے ایسے ٹی وی پروگرام بند کروا دیئے جن میں
زبان تبدیلی کی یہ کوشش کی گئی (2)
- بنگالی کو سرکاری زبان کی حیثیت نہ دینا .....
اول دن سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک یہ مطالبہ بنگالی تحریک کی جان رہا ،
مگر ہم نے کچھ بھی سیکھنے سے انکار کر دیا ،،،یہاں تک کہ ٢١ فروری ١٩٥٢ میں
پولیس نے مظاہرین کو طاقت کے زور سے کچلنے کی کوشش میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے
چار طلباء کو ہلاک کر دیا (3)...جس کے ردعمل میں پورے مشرقی پاکستان میں نہ
صرف احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو گیا بلکہ لوگوں نے یادگار شہداء قائم کی
...جسے پولیس نے گرا دیا ....لوگ مزید مشتعل ہوئے اور انہوں نے ہر سال ٢١
فروری کو یوم شہداء منانے کا اعلان کیا (4) ،،،یہ دن ١٩٧١ تک لوگ مناتے رہے
اور مرکز سے اپنا جائز حق مانگتے رہے -
- مرکز نے قومی اسمبلی کا ڈھاکہ میں سیشن کے
انعقاد سے انکار کر دیا
- پنجاب سے تعلق رکھنے والی بیوروکریسی کو بنگال میں تعینات کیا
گیا
- مغربی پاکستان کے ساتھ تجارت کی بندش ....یہاں تک کہ مشرقی
پاکستان کے وسائل کو مغربی پاکستان میں خرچ کیا گیا جبکہ مغربی پاکستان
میں صنعتی پیداوار اور انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی رفتار مشرقی پاکستان سے بہت
زیادہ تھی ....جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی نے مشرقی پاکستان کے
لوگوں کو یہ باور کروایا کہ پہلے ان پر انگریزوں کی نوآبادیایات قائم تھی
جبکہ اب ان پر مغربی پاکستان کی "داخلی نو آبادیات" نافذ ہے
(1)
- پٹ سن سے حاصل ہونے والے
زرمبادلہ کو مغربی پاکستان پر لگایا جاتا تھا .... گوورنمنٹ کی کرنسی ریٹ سے
متعلق پالیسی سے مشرقی پاکستان کی پٹ سن کی تجارت کو کافی نقصان پہنچا....
مگر گورنمنٹ نے اپنی پالیسی میں جائزے کے لئے جو "جیوٹ بورڈ "
بنایا اس میں بھی اکثریت مغربی پاکستان کی تھی ، اس نے بھی مرکز کی ساکھ کو
نقصان پہنچایا .....یاد رہے کہ ١٩٥٤ کے انتخابات میں بنگالی اپوزیشن کا بڑا
نعرہ ہی مرکز کی پٹ سن سے متعلق پالیسی کی مخالفت میں تھا - (2)
- (ون یونٹ سکیم جس کا مقصد بنگال کی
جمہوری اکثریت کو اقلیت میں بدلنا تھا (2
- ١٩٥٤ کے انتخابات میں کامیابی کے باوجود یونائیٹڈ
فرنٹ کو محض ایک ماہ کا اقتدارنصیب ہوا ، اور اسے کمیونسٹ نواز اور بھارت
نواز کے الزامات لگا کر برطرف کر دیا گیا (2)
یہ سب مادی اسباب ہیں
جنہوں نے پاکستانی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ....چاہیے تو یہ تھا کہ ریاست و سیاست
بنگال کے لوگوں کی ضرورتوں اور آرزوں کو اپنا مقصد بناتی ، مگر بدقسمتی سے ان
چیلنجز کے جواب میں مرکز (مغربی پاکستان ) نے محض ایک مخصوص بیانیہ کی تبلیغ سے سب
مسائل حل کرنے کی کوشش کی - جب اس افراتفری اور بے چینی کے دور میں سردار عبدالرب
نشتر ڈھاکہ کے دورے پر گئے تو انہوں نے فرمایا -
"علاقائی حب الوطنی اسلام کے منافی
ہے ، پاکستان اس بنیاد پر وجود میں آیا تھا کہ مسلمان ایک قوم ہیں ، لہذا بنگالی ،
پنجابی ، بہاری بن کر سوچنا پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے ...یہ
گمراہ کن خیالات پاکستان کے دشمن پھیلا رہے ہیں جو مسلمانوں کے درمیان ففتھ کالمسٹ
(بھارتی ایجنٹوں ) کا کردار ادا کر رہے ہیں " (2) ....
مطلب یہ کہ بنگال کے
لوگوں کے مطالبات غیر اسلامی ، اور حب الوطنی کے خلاف ہیں ، اور یہ سب بھارت کی
سازش ہے ....اور ریاست آج تک یہی الزام لگا رہی ہے اور ہم آج بھی حقوق مانگنے والی
تحریکوں کو غیر اسلامی ، حب الوطنی سے متصادم ، اور بھارتی سازش سمجھتے ہیں -
حوالہ جات
1. The state of martial
rule by Ayesha Jalal
2. Pakistan a new history
by Ian Talbot
3. Bhasha Andolan and the
beginning of the breakup of Pakistan by M. Habib ur Rehman
4. The Secred and the
secular : bangal muslim discourses 1871 - 1977 by T.M. Murshid
Unknown
Tuesday, October 20, 2015