سائنس ایک زہین مگر محتاط انسانی کوشش ہے جس میں انسان اپنے حسیاتی شعور کو استعمال میں لا کر یہ سمجھتا ہے یا سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ فطرت کیا ہے اور کیسے عمل کرتی ہے ؟ اور ہم فطرت کے مطالعہ سے حاصل ہونے والے علم سے انسانوں کی زندگی کیسے بہتر بنا سکتے ہیں ؟
اس میں ہم انسانی فطرت اور آزاد انسانوں کے باہمی اشتراک سے وجود میں آنے والی سوسائٹی (سماج ) کو پڑھتے ہیں ...اس کے چند موضوعات درج ذیل ہیں
فرد کیا ہے ؟ فرد کن اسباب کی وجہ سے گروپ کمیونٹی یا معاشرہ بناتا ہے؟ افراد باہم کس اساس پر تعاون و تبادلہ اور اشتراک عمل کرتے ہیں ؟ سماج میں ادارے کیسے وجود میں آتے ہیں ؟ تمدن ، ثقافت ، تہذیب کیسے وجود میں آتی ہیں ؟ سماج کیسے کام کرتا ہے ، اسکی حرکت یا ارتقاء و تنزلی کی کیا وجوہات ہیں ؟ وغیرہ
وغیرہ
(نوٹ ؛ انسانی فطرت کا وہ رویہ جو کائناتی قوانین کے جبر پر قائم ہے جیسے بھوک ، پیاس اور سیکس وغیرہ اس کا زیادہ تر مطالعہ بھی نیچرل سائنس میں شامل ہے، جبکہ انسانی کردار کا وہ حصہ جو انسانی اختیار کے اصول پر قائم ہے اسے ہم زیادہ تر سوشل سائنس میں پڑھتے ہیں )
یہ اہم بات یاد رہے کہ سوشل سائنسز اور نیچرل سائنسز ایک خاص طریقہ کار کی پابندی کرتی ہیں جسے ہم سائنسی فکر کہتے ہیں .....اور یہ بھی یاد رہے کہ سوشل سائنسز اور نیچرل سائنسز کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا ہے .سوشل سائنسز بہترین سائنسی تمدن قائم کرتی ہیں جن میں فرد و سماج کی فلاح کے ساتھ ساتھ ایسا بندوبست قائم کیا جاتا ہے کہ جس میں نیچرل سائنسز بغیر کسی خوف و حزن کے آزادانہ کام کریں اور یوں دونوں کی اپنے اپنے میدانوں میں مگر باہم مربوط جدوجہد سے انسانی صلاحیتوں اور امکانات میں اضافہ ہو
سائنسی فکر کیا ہے ؟
مشاہدہ ،اور معلومات اکٹھی کرنا ، ،،،،پھر انکی بنیاد پر مفروضہ قائم کرنا ....مفروضہ کو تجربات کی مدد سے جانچنا ،،،،، اگر مفروضہ صحیح ثابت ہو تو اس سے انکشاف قائم کرنا ....اس انکشاف کو متعلقہ میدان کے ماہرین اور نقاد کے گوش گزار کرنا ،اور پھر اس انکشاف کی جب توثیق ہو جاتی ہے تو وہ نظریہ بن جاتا ہے .....اس نظریہ کو پھر ایک طویل عرصہ تک مکالمہ کی صورت میں سائنس دان اور ماہرین بار بار ڈسکس کرتے ہیں تب جا کر اسے لاء کی شکل دی جاتی ہے ....اور وہ لاء بھی مسلسل ترمیم و تبدیلی کے عمل سے گزرتا جاتا ہے -
نیچرل سائنس میں یہ عمل لیبارٹری میں ہوتا ہے جبکہ سوشل سائنسز میں کوئی باقاعدہ لیبارٹری نہیں ہوتی ، اس لئے سوشل سائنس کے کوئی مطلق قوانین نہیں ہیں بلکہ محض نظریات ہوتے ہیں .....
نیچرل سائنس میں جب ایک انکشاف یا نظریہ اپنی توثیق حاصل کر لیتا ہے تو اس تحقیق کو انسانوں کی منفعت کے لئے ٹیکنالوجی میں بدلا جاتا ہے ...یاد رہے کہ پہلے سائنس جنم لیتی ہے پھر ٹیکنالوجی ....جبکہ سوشل سائنسز میں آپ اپنے نظریات یا انکشافات کو ماہرین (دانشور )، نقاد، اور عوام کے سامنے رکھتے ہو ، یہ بھی مکالمہ کا حصہ بنتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں ....ان نظریات کی عموما تین قسمیں ہوتی ہیں
١. ایسے نظریات جو اپنی نوعیت میں اکیڈمک ہیں ، یہ نظریات دانشوروں اور علم دوست افراد کے درمیان صحت مند مباحثہ اور سماجی سائنس کی تعبیرات و تشریحات کے حوالے کر دیے جاتے ہیں ....
٢. ان نظریات کا تعلق فرد سے ہوتا ہے اس لئے یہ فرد کی آزاد خواہش کے تابع ہوتے ہیں چاہے تو فرد مان لے یا نہیں ....ایک لبرل سماج میں ان نظریات کو ماننے اور نہ ماننے کا کوئی جبر نہیں پایا جاتا -
٣. ایسے نظریات جو قانون سازی کے عمل کا حصہ بنتے ہیں ان کا معیار شہریوں کی منفعت ہے ....ایسے نظریات کو نافذ کرنے سے پہلے شرط یہ ہے کہ پہلے ان پر مکالمہ ہو ، یہ دیکھا جائے کہ ان سے بنیادی انسانی حقوق کو کوئی خطرہ تو نہیں، اور پھر جب کامیاب مکالمہ کے بعد رائے عامہ اور عوام کے منتخب نمائندے اسکی توثیق کر دیں تو یہ قانون سازی کے عمل سے گزر کر قانون بن جاتے ہیں جن کی پابندی تمام شہریوں پر ضروری ہوتی ہے .... اب قوانین کے اطلاق کے بعد انکی منفعت دیکھی جاتی ہے ، اگر قوانین نے شہریوں کو فائدہ پہنچایا تو ان میں ارتقاء اور مثبت ردوبدل جاری رہے گا جبکہ دوسری صورت میں کسی بھی لیت و لعل کے بغیر انہیں ریجیکٹ کر دیا جائے گا -
یاد رہے کہ کسی بھی مطلق سچ کو ماننا یا نہ ماننا فرد کی صوابدید پر ہے ، مگر سماج کا (جس میں ہر مذہب ، نظریہ ، نسل وغیرہ کے لوگ پائے جاتے ہیں ) کوئی بھی مطلق سچ نہیں ہوتا -
ذیشان
ؐمحمد کامران