پاکستان کی اسٹریٹجک گہرائی
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ چین اس وقت چار
اکنامک کوریڈورز پر کام کر رہا ہے جن میں سے ایک پاکستان سے گوادر تک ہے ، دوسرا میاںمار
اور بنگلہ دیش سے بھارتی کلکتہ تک پہنچے گا ...اور تیسرا اور چوتھا یورپ میں فرانس
اور جرمنی تک پہنچے گا .... خطہ کے پچاس ممالک اس کا حصہ ہیں .... بنیادی مقصد شاہراہ
ریشم (سلک روڈ) جو مظبوط بحری ٹیکنالوجی کی ایجاد
سے پہلے ایشیا و یورپ میں علم کی ترسیل اور تجارت کا زمینی راستہ تھی، کو دوبارہ
سے فعال بنانا ہے .....ان چاروں پروجیکٹس کا
نقشہ ذیل میں دیا گیا ہے -
میں ایک بات بار کہتا آیا ہوں کہ پاکستان
کا تجارتی و اسٹریٹجک مفاد سارک ، سینٹرل ایشیا ، اور شاہراہ ریشم میں ہے .... چین
کی اس کوشش سے پہلے پاکستان براستہ ایران و ترکی ایک ریلوے لائن کے پروجیکٹ میں بہت
سنجیدہ تھا ، جو شاید اب بنیادی ترجیح نہ رہا ہوں .... اگر چین شاہراہ ریشم کے لئے
ایران کے راستہ کا انتخاب کرتا ہے (جو کہ
اس لئے زیادہ feasible ہے بھی ، اور نہیں بھی. کیونکہ پاکستانی
کوریڈور چین کے شنگھائی کے بعد سب سے بڑے صنعتی و تجارتی hub گوانگ زو سے جا ملے گا ، جو چینی مارکیٹ کے لئے پاکستان کا سب سے بڑا
ایڈوانٹیج ہے ) ... تو دوسری طرف ایشیا کی دوسری بڑی مارکیٹ
بھارت کو ہمارے ملک کے اندر سے ہی رستہ ملنا ہے جو پاکستان کے اسٹریٹجک ایڈوانٹیج اور
ریوینو کو بہت زیادہ بڑھا دے گا -
سینٹرل ایشیا کی مارکیٹ نئی اور
unoccupied ہے ....وہاں تجارت کے لئے یا تو روس کا
راستہ اختیار کیا جاتا ہے ، جو کہ طویل اور چھ ماہ کے دوران (موسمی اسباب کی وجہ سے
) بند رہنے والا راستہ ہے ، ان ممالک کے اپنے سمندری روٹ افریقہ
کی طرح کم تجارتی گزرگاہیں بھی ہیں اور سرما میں جم جانے والےبھی ، اس لئے بڑی شپنگ کمپنیز کا بھی یہ روٹ نہیں ،،،،دوسرا
راستہ جو یہ ممالک اختیار کرتے ہیں وہ ایران اور افغانستان ہے ، افغانستان کی اپنی
بندرگاہ نہیں ، ایران میں بہت بندرگاہیں ہیں ... تو بارہ مہینہ استعمال میں ہونے والا
یہ راستہ اس وجہ سے بھی کم استعمال ہو رہا ہے کہ ایران میں بین الاقوامی پابندیوں کی
وجہ سے رسد (سپلائی ) کی انتہائی کمی ہے .... جب ایران کے پاس اپنی ضرورت کے لئے سپلائی
نہیں ، تو وہ دوسروں کی ضرورت کو کیسے سپلائی کرے گا ....انڈیا اس جانب آگے بڑھا ہے
، اور وہ سپلائی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ایران میں ایک تجارتی بندرگاہ بنانے
کے لئے پلاننگ کر رہا ہے ، مگر میرا نہیں خیال کہ یہ پروجیکٹ آگے بڑھ سکے گا ، دو وجوہات
سے
-چینی پروجیکٹس کے شروع ہوتے ہی اس پروجیکٹ
کی فزیبلٹی کم ہو جائے گی ....ایک تو لاجسٹکس کے پہلو سے ،،،،کیونکہ یہ چاروں روٹس
باہم جڑے ہوئے ہوں گے ، یوں ایک روٹ سے آپ دوسرے روٹ میں داخل ہو سکیں گے ، اس لئے
ایک علیحدہ سے اتنے بڑے پروجیکٹ کا انتخاب کبھی موزوں نہیں ہو گا
-بحری سفر انڈیا سے ایران طویل ہے ، جبکہ
واہگہ سے ایران کا سفر مختصر اور تیز رفتار ہے .... انڈیا سے دبئی تک کا بحری سفر ایک
ہفتہ کا ہے ، اور یہی ایک ہفتہ انڈیا سے ایران کا ہو گا ...اسی طرح شپنگ اور لاجسٹکس
سے متعلق لوگ جانتے ہیں کہ شپنگ ، لوڈنگ ، ان لوڈنگ جیسے امور میں ایک ہفتہ مزید لگ
جایا کرتا ہے یوں دو ہفتہ کے مہنگے سفر سے انڈیا سے ایران کا زمینی سفر اگر تین دن
کا ہو تو کوئی بھی ا اسے قبول کرنے سے انکار نہیں کرے گا .....
اگر یہ شاہراہیں مکمل ہو جاتی ہیں تو قوی
امکان ہے کہ علاقائی اتحاد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا ....اور یہ سب سے زیادہ انحصار
کرتا ہے چین پر ...اور ماہرین چین کے فنانشل کرائسس کی بھی پیش گوئی کر رہے ہیں جو
آج کل کی انٹرنیشنل اکنامکس کا ہاٹ issue ہے
–